<<Previous>>


Social Reforms committee
Of
Dhund ٓAbbasi Tribe
1890-1968
  یا

انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ
 کوہسار و آزاد کشمیر
**************************
تحقیق و تحریر
محمد عبیداللہ علوی
صحافی، مورخ، انتھروپالوجسٹ اور بلاگر
*************************

اٹھارویں عیسوی کے دوران خونخوار سکھا شاہی کے دوران جوں جوں کوہسار کے قبائل پر مظالم میں اضافہ ہو رہا تھا توں توں وہ بھی ایسی ہر ہر جدوجہد اور کوشش کا ہراول دستہ بن کر آگے بڑھے جو اس طوفان بد تمیزی کیخلاف کوہسار میں کہیں بھی شروع ہوتی ۔ اہلیان کوہسار نے خانوادہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے دو مجاہدین سید شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کی قیادت میں آخری معرکہ سر کیا اور سرکل بکوٹ سے مری اور لورہ تک جگہ جگہ شہر خموشاں آباد کئے ۔  اس کے بعد آخری کوشش معرکہ مری کی صورت میں 1857میں سردار شیر باز خان شہید کی قیادت میں کی گئی اور ایک نسوانی ٹیکنیکل غلطی کے سبب اہلیان کوہسار کے آج کیلئے ہمارے بزرگوں اور مجاہدین نے نہ صرف اپنا کل قربان کیا  بلکہ کوہسار کا ہر ہر گائوں، گراں، ہل اور ڈھوک کے ہر ہر گھر سے آگ کے بھانبھڑ بھڑکنے لگے ۔ آج کے برمی مظلوم و محکوم، بے کس و بے بس مسلمانوں کی طرح  اس عہد کے قبائل کوہسار کو بھی اپنی جان، مال، عزت و آبرو بچانے کیلئے کوہسار بھر کی نکروں اور ناقابل رسائی پہاڑی چوٹیوں اور مقامات کی جانب مستقل بہکیں لے جانی پڑیں اور وہ واپس اس وقت آئے جب امن ہو گیا تھا۔
انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ سے قبل
میرا رب کبھی بھی اپنے محکوم اور مظلوم بندوں کو بے آسرا نہیں چھوڑتا ، کوئی نہ کوئی سر سید ان کی رہبری، رہنمائی، حوصلہ افزائی اور مدد کیلئے پیدا کر دیتا ہے، سرکل بکوٹ میں موجودہ یونین کونسل بکوٹ ہمیشہ سے زرخیز دماغوں کی سر زمین رہی ہے، 


یہاں پر ایک فیوڈل لارڈ ، سردار حسن علی خان ، رہتے تھے۔ ان کے ہاں 1812 میں ایک بچہ پیدا ہوا ، نام دوست محمد رکھا گیا، اس نے معرکہ بالا کوٹ اور اس کے بعد ہری سنگھ نلوہ کے کوہسار میں مظالم کے خلاف قبائل کوہسار کی پروانہ وار جنگ آزادی میں نہ صرف خود حصہ لیا بلکہ جب مری میں ، سردار شیرباز خان اور ان کے ساتھوں کو توپ زد کیا گیا تو وہ اس سانحہ فاجعہ کا چشم دید گواہ بھی تھا ۔،ان واقعات نے اسے دوست محمد کے بجائے  سردار دوست محمد خان  بنا دیا، اس نے اپنی ڈھونڈ عباسی برادری سمیت تمام چھوٹے بڑے قبائل کو مشورہ دیا کہ  اگر تم نے اپنی زندگی، اپنی املاک اور اپنی عزت وع آبرو بچانی ہے تو یہ بات اب تسلیم کرنا پڑے گی کہ ۔
****** سکھا شاہی کا کوہسار سے خاتمہ ہو چکا ہے اور اب ہمارے نئے حاکم دیار فرنگ کے انگریز ہیں ۔
****** انگریز اب کوئی واہمہ نہیں اور وہ زندہ حقیقت ہیں ۔
****** آگے بڑھنے کیلئے ان سے تعاون ضروری ہے ۔
****** ہم تب ہی کامیاب ہوں گے جب مالی اور تعلیمی اعتبار سے مستحکم ہوں گے ۔
سردار دوست محمد خان اور ان کا عہد
 اپنی اس علاقائی حکمت عملی کی
 بدولت  ایبٹ آباد انتظامیہ کے برابر کرسی نشین قرار دئیے گئے  سرکل بکوٹ میں ہونے والے ہر معاملہ میں ان سے مشاورت کی جانے لگی ۔ 1865 میں جب ہزارہ میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کی تشکیل ہوئی تو سردار دوست محمد خان کے کہنے پر ہی سرکل بکوٹ کے بیچ پولیس سٹیشن اپنے گھر کے قریب مرکزی مقام پر بنوایا، اپنی اراضی بھی پیش کی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ ۔۔۔۔ برٹش پولیس سرکل بکوٹ میں نہ دندنائے اور نہ ہی ان کی اپنی ڈھونڈ عباسی برادری کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی یا ظلم ہو ۔ انہوں نے سرکل بکوٹ بھر میں سب سے پہلے یو سی بکوٹ میں ورنیکلر پرائمری سکول بنوایا تا کہ  ان کی برادری سمیت تمام قبائل جدید تعلیم سے استفادہ کر سکیں ۔ انہوں نے اپنے دو بیٹوں سردار آزاد خان اور سردار عبدالرحمان خان کو بھی جدید تعلیم دلوائی، یہ سلسلہ آگے بڑھا اور ان کے ایک پوتے سردان عثمان نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے سیاست میں بھی نام کمایا، دیگر پوتوں میں سردار خلیل عباسی ہزارہ ہل ٹرسٹ کے سیکرٹری اور سردار سعید عباسی آڈیٹر جنرل آف آزاد کشمیر اس لئے بنے کہ اپنے دادا کی وصیت پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔۔۔۔ ایک ان کے بیٹے آزاد خان نے بھی اعلٰی تعلیم حاصل کی اور وہ کمیشن آفیسر اور بعد میں برٹش انڈیا کے ڈپلومیٹ بھی بنے۔ سردار دوست محمد خان نے سفر کے ذرائع میں بھی آسانیاں پیدا کرنے کیلئے نتھیاگلی اور کوہالہ براستہ بکوٹ تک گھوڑوں کی پگڈنڈی بھی بنوائی۔ ان کے چمبیاٹی کے ڈوگرہ کشمیر میں پہلے ڈی ایس پی سردار محمد اکرم خان کے ساتھ رشتہ داریاں بھی تھیں اور اس طرح دونوں خاندانوں کے افراد کا دونوں طرف آنا جانا بھی تھا ۔ 1870 کے لگ بھگ ایک شادی کی تقریب میں سردار دوست محمد خان نے سردار اکرم خان کے ساتھ اپنی برادری ڈھونڈ عباسیوں کے اندر فضول رسومات اور اس کے نتیجے میں ان کی اقتصادی بد حالی پر تبادلہ خیال کیا۔ بکوٹ سمیت بیروٹ اور دیگر علاقوں میں بھی ہندو ساہوکار تھے جو غمی خوشی کے موقع پر غریب مسلمانوں کو قرض دیتے اور جب یہ قرض سود سمیت قرض دار کے بس میں نہ رہتا تو ساہو کار اس کے خلاف ڈگری حاصل کر کے اسے جائیداد، گہنے اور دیگر املاک سے محروم کر دیتا۔  یہ صورتحال کوہسار کے مسلمانوں کیلئے سخت تکلیف دہ تھی اور اس کیخلاف سرکل بکوٹ میں موضع سنگل کے ایک عالم دین مولانا فقیراللہ سنگلوی برسوں سے ایک خاموش تحریک بھی چلا رہے تھے مگر کوئی سنتا نہیں تھا۔ 1888 میں سرکل بکوٹ کا سر سید اپنے رفیق اعلیٰ کے پاس پہنچ گیا۔ 1889 میں دھیرکوٹ کے دو ڈھونڈ عباسی خاندان ہندو ساہو کاروں کے ہاتھوں اپنی املاک اور اراضی سے محروم ہو گئے۔ ان مسلمان خاندانوں کی ساہوکاروں کے ہاتھوں ضبط املاک اور اراضی بازیاب کرانے کے ساتھ1890 میں چمبیاٹی میں ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کی بنیاد رکھی گئی،  سردار آزاد خان اس انجمن کے مشیر مقرر کئے گئے ۔۔۔۔ اس لئے دیکھا جاوے تو اس انجمن کا اصل بانی اور صلاح کار یو سی بکوٹ کےسر سید سردار دوست محمد خان ہی تھے۔ایک طرف شمالی سرکل بکوٹ میں سردارحسن علی خان کے آباو اجداد بھی ایبٹ آباد انتظامیہ کے کرسی نشین بنے ، انہوں نے گڑھی حبیب اللہ کو اپنی جاگیردارانہ اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ۔۔۔۔ وہاں ہی تھانہ بھی اپنی انگریز کی عطا کردہ حاکمیت کو مزید مستحکم کرنے کیلئیے بنوایا ۔۔۔۔ مگر گڑھی حبیب اللہ میں پرائمری سکول 1925 تک نہیں بن سکا اور نواب ابن نواب سردار حسن علی خان بکوٹ ورنیکلر سکول کے طالب علم رہے ( یہ بات بکوٹ کے صحافی نوید اکرم عباسی نے راقم الحروف کو بتائی تھی) ۔۔۔۔ بوئی کے ان نوابوں کو تمام تفویض کردہ انگریزی اختیارات کے باوجود اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ ککمنگ سے گڑھی حبیب اللہ تک اپنی جاگیر میں کوئی پختہ راستہ ہی بنوا دیتے ۔۔۔۔ وزیر اعلیٰ اقبال خان جدون نے بوئی کو گڑھی حبیب اللہ سے سڑک کے ذریعے 1975 میں جوڑا جبکہ 1998 وزیر اعلیٰ سردار مہتاب احمد خان نے کوہالہ سے براستہ ککمنگ بوئی تک روڈ سے لنک کیا اور ۔۔۔۔۔ بمبہ سردار اور امیدوار قومی اسمبلی جاوید اقبال ۔۔۔۔ کی رہی سہی جاگیرداریت اور نوابی پر اسی کے کھیت میں ہل چلا کر اس کا غرور خاک میں ملا دیا ۔۔۔۔ اسی سردار حسن علی خان کا ایک پوتا رستم خان آج کل ۔۔۔۔ مسلم لیگ نون(مہتاب) کا بوئی میں عہدایدار بھی ہے ۔
سردار محمد اکرم خان ۔۔۔۔ انجمن کے معمار
ڈوگرہ کشمیر کے پہلے مسلمان ڈی ایس پی سردار اکرم خان نے اپنی باعزت بحالی کے بعد ۔۔۔۔ برادری کی مزید خوشحالی اور ترقی کیلئے کچھ مزید عملی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا، ستمبر1906  میں انہوں نے اپنے گھر چمبیاٹی میں معزین قبیلہ کا ایک گرینڈ جرگہ بلایا اور انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کے اساسی مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اسے ٹاسک دیا کہ وہ دھیرکوٹ کے علاقے میں یہ تخمینہ لگائے کہ برادری میں ۔۔۔۔ کم وسائل ۔۔۔۔ لوگ کون کون سے ہیں اور برادری کے مخیر حضرات ان کی خدمت کیسے کر سکتے ہیں ۔۔۔۔؟ انہوں نے کمیٹی کو ایک اور ٹاسک دیا کہ وہ اس وقت کے سرکل بکوٹ، سرکل لورہ اور کوہ مری کے ڈھونڈ عباسیوں کو بھی اس انجمن میں شرکت کی دعوت دیں اور اگر وہ قبول کریں تو ۔۔۔۔ اپریل 1909 میں چمیاٹی میں ہونے والے کنونشن میں ان کی شرکت کو ممکن بنانے کی کوشش کریں ۔۔۔۔ کمیٹی ارکان نے دھیر کوٹ سے کام کا آغاز کیا اور کچھ ارکان سرکل بکوٹ، سرکل لورہ اور کوہ مری کی جانب چل پڑے اور ۔۔۔۔ اگلے سال جون میں سردار اکرم خان کو رپورٹ پیش کر دی اور ڈھونڈ عباسیوں کی مقامی و غیر مقامی برادریوں کے بارے میں ان کے پاس خاصا مواد بھی جمع ہو گیا ۔۔۔۔ سردار اکرم خان سری نگر اور اس حوالے سے جموں، سیلکوٹ اور لاہور کے علمی حلقوں میں متعارف تھے، ان کے معروف مورخ اور انتھراپالوجسٹ محمد دین فوق سے بھی تعلقات تھے، فوق صاحب محکمہ مال کے ملازم تھے اس وجہ سے ان کے پاس برادریوں کا ریکارڈ بھی تھا
۔۔۔۔ سری نگر میں ان سے سردار اکرم خان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی کتاب ۔۔۔۔  آئینہ قریش ۔۔۔۔ کا مسودہ انہیں دکھایا اور اس پر نظر ثانی کی درخواست بھی کی، فوق صاحب نے بڑی محنت سے دو ماہ تک اس کتاب میں حک و اضافے کئے اور سردار صاحب کی فرمائش پر اس کی لاہور سے ہی اشاعت بھی کی ۔۔۔۔ فوق صاحب نے اس کتاب پر اپنے ماہنامہ کشمیر میگزین میں نہ صرف 6 ماہ تک بلا معاوضہ اشتہار شائع کیا بلکہ اس پر دو صفحات کا تبصرہ بھی کیا، ڈھونڈ عباسیوں کی اس پہلی مستنند تاریخ کی یہ اہمیت ہے کہ ۔۔۔۔ جب  انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کا 1909 میں کنونشن ہوا تو کتاب ۔۔۔۔ آئینہ قریش ۔۔۔۔ کو  ہر برادری کے ناخواندہ افراد نے نہ صرف دو آنے میں خریدا بلکہ انہوں نے اپنے اپنے گائوں کے پڑھے لکھے لوگوں سے پڑھوا کر سنی بھی اور اسے کسی مقدس کتاب کی طرح انتہائی اہتمام کے ساتھ محفوظ کیا ۔۔۔ آج کہیں کہیں سے یہ کتاب برآمد ہوتی ہے تو یہ اسی زمانے کی یاد گار ہے۔
1910 میں کشمیر اور کوہسار بھر میں طوفانی بارشیں ہوئیں، کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، پھل فروٹ بھی ختم ہو گئے، ایسی بے بسی کی حالت میں ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ اپنی برادری کی مدد کو پہنچی، سردار اکرم خان کی اپیل پر گھروں کے کوٹھار (ایک ایسی کُھن  جس میں غلہ سٹور کیا جاتا تھا) سے ذخیرہ کئے گئے اناج کے منہ کھول دئے گئے ۔۔۔۔ تمام برادری کی اتنی خدمت کی کہ ہر کسی کی زبان پر انجمن کا نام ہی تھا ۔۔۔۔ اس موقع پر انجمن کے اساسی دستور میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ۔۔۔۔ ہر فصل پر عشر اور دو چواہ (دس کلو ) اناج خود انجمن جمع کرے گی اور برادری کے بے وسائل خاندانوں تک باوقار طریقے سے پہنچائے گی، فطرانہ اور قربانی کی کھالیں بھی اکٹھی کر کے ان کی آمدنی سے برادری کی بیوہ غریب خواتین کی مدد کی جاوے گی ۔۔۔۔ اس وقت پورے پونچھ میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی تھی مگر 1912 میں انجمن کی اپیل پر سر عام گائے کی قربانی کی گئی مگر پونچھ انتظامیہ کو کوئی ایکشن لینے کی جرات نہ ہو سکی ۔۔۔۔ اس زمانے میں انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ نے ایک سوشل تنظیم کے علاوہ  غیر حکومتی تنظیم (این جی او) کا بھی روپ لے لیا تھا ۔۔۔۔ اس کی صدائے باز گشت کشمیر بھر میں سنی جا رہی تھی  ۔۔۔۔ اسی تنظیم کی دیکھا دیکھی اور اسی جیسے مقاصد کو سامنے رکھ کر جموں میں ایک اور تنظیم ۔۔۔۔۔ انجمن اسلامیہ ۔۔۔۔ بھی قائم کی گئی اور مہاراجہ بلدیو سنگھ نے انجمن اسلامیہ کیلئے 18 سو روپے ماہانہ مداد کی بھی منظوری دی ۔۔۔۔1914  میں کشمیر میں پھر قحط کی صورتحال پیدا ہوئی مگر اس انجمن کے پاس اتنا غلہ تھا کہ اس سے نہ صرف ڈھونڈ قبیلہ کی بلکہ علاقے میں آباد دیگر قبیلوں کی بھی مدد کی ۔۔۔۔۔1916  میں دھیر کوٹ میں دو عباسیوں کی زمینیں سود خور مہاجنوں نے قرض کے عوض ضبط کر لیں، جس پر غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور پورے پونچھ میں مہاجنوں کا سوشل بائیکاٹ شروع ہو گیا، اسی کی صدائے بازگشت میں کوہ مری ، دیول اور کوہالہ میں ساہوکار مہاجنوں اور سود خوروں کے خلاف سردار کالا خان کی اپیل پر مکمل سوشل بائیکاٹ اور قرضہ کے علاوہ ایک دھیلہ بھی زیادہ دینے سے انکار کر دیا گیا مگر اس بائیکاٹ کے دوراں کافی مہاجنوں کی دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا اور وہ اپنی تجوریاں سمیٹ کر جموں اور سرینگر فرار ہو گئے ۔۔۔۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی ، اہلیان کوہسار کو بھی  اس جنگ کے فوائد سمیٹنے کیلئے کوہ مری میں انجمن کا ایک اجلاس ہوا جس میں اس جنگ میں انگریزوں سے تعاون کا فیصلہ کیا گیا اور اس کو ڈھونڈوں کے علاوہ دیگر برادریوں تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور برٹش وار فنڈز میں ایک لاکھ روپے کا بھی عطیہ دیا گیا ۔۔۔۔ اس عمل سے انگریز حکومت کا رویہ مری، سرکل بکوٹ و لورہ اور کشمیر کے مسلمانوں سے بدل گیا اور مسلمانوں پر بھی ملازمتوں کے دروازے کھل گئے ۔
1924 میں انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کی ایک نئی شکل
1924 سے انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کی ایک نئی شکل سامنے آتی ہے، اس سال سردار نور خان نے اس تنظیم کی سرپرستی سنبھال لی جبکہ کوہسار کے مایہ ناز شاعر، صحافی، مورخ اور ماہر تعلیم پروفیسر کرم حیدری نے اسے ایک ادبی اور علمی تنظیم بنا دیا ۔۔۔۔ برصغیر بھر کے شعرا جن میں مولانا ظفر علی خان، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، مولانا حسرت موہانی اور انہی جیسے دیگر دانشور جب مری آتے تو نہ صرف یہ تنظیم ان کی میزبانی کرتی بلکہ اس کے زیر اہتمام مشاعرے بھی منعقد کئے جاتے،  بیروٹ سے تعلق رکھنے والے کوہسار کے پہلے شاعر مولانا یعقوب علوی بیروٹوی، گھوڑا گلی کے شاعر  ۔۔۔۔ بخاری، چارہان کے شاعر ملک حنیف وجدانی اور دیگر کی ادبی و شاعرانہ صلاحیتوں کو انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کے زیر اہتمام ہونے والے مشاعروں سے جلا ملی، اپنے وقت کے بڑے بڑے شاعروں کی قربت نے انہیں کوہسار میں ادب کی تخلیق کا ذریعہ بھی بنایا، اس انجمن کے زیر اہتمام یہ سلسلہ1945 تک جاری رہا۔ 1932 میں ڈوگرہ حکومت نے پونچھ میں ڈیمارکیشن کا قانون پاس کیا جس کے تحت مسلمانوں سے جائیدادیں لیکر ہندوئوں میں بانٹا جانا تھا ۔۔۔۔ اس قانوں کے تحت ہل سرنگ، منہاسہ کے ۔۔۔۔ سید احمد شاہ گردیزی ۔۔۔۔۔ نے تحریک کا اعلان کر دیا ۔۔۔۔ اس وقت سردار اکرم خان وفات پا چکے تھے اور انجمن کی قیادت ان کے بھائی سردار یوسف خان کے ہاتھ میں تھی، انہوں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر سید گردیزی کی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور اپنی برادری کو حکومت کو مالیہ نہ  دینے اور سول نافرمانی  کی کال  بھی دیدی تاہم احتجاج کی نوبت نہ آ سکی اور مہاراجہ نے یہ کالا قانون منسوخ کر دیا ۔
 سردار محمد ایوب خان اور پاکستان کے پہلے انتخابات
1940 میں سردار محمد ایوب خان چیف جسٹس کشمیر ہائیکورٹ کے عہدہ جلیلہ سے سبکدوش ہو کر اپنے آبائی گھر چمبیاٹی آئے اور انہوں نے انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی، اس وقت تک مری اور سرکل بکوٹ میں  بھی انجمن کی شاخیں قائم ہو چکی تھیں اور بڑا فعال کردار ادا کر رہی تھیں ۔۔۔۔ 1945 میں قائد اعظم محمد علی جناح براستہ کوہالہ مری آئے، برسالہ ریسٹ ہائوس میں سردار ایوب خان نے نہ صرف قائد اعظم کا اپنی برادری کے اہم افراد کے ساتھ ان کا استقبال کیا، بلکہ انہیں مسلم لیگ کے فنڈز میں 10 ہزار روپیہ اپنی ڈھونڈ عباسی برادری کی طرف سے پیش بھی کیا، قائد اعظم نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔۔ سردار ایوب خان نے سابق فوجیوں کا ایک دستہ بھی مارچ پاسٹ کیلئے تیار کیا ہوا تھا ۔۔۔۔ برسالہ سے شرقی کوہالہ تک یہی دستہ قائد کی گاڑی کو گھیرے رہا اور پل پر آپ کو آخری سلامی دی اور رخصت کیا ۔۔۔۔ 1950 میں سردار ایوب خان  نے انجمن کا ایک گرینڈ کنونشن کوہالہ ڈاک بنگلہ میں بلایا جس میں کشمیر کے علاوہ سرکل بکوٹ، سرکل لورہ اور مری سے ڈھونڈ عمائدین کو مدعو کیا گیا، یہ کنونشن تین روز تک جاری رہا، میزبانی باسیاں کے حاجی محمد کریم خان نے کی، کنونشن میں سوچ بچار کی گئی کہ پاکستان کے پہلے الیکشن میں سرکل بکوٹ سے کون سا امیدوار سامنے لایا جاوے ۔۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔۔ اس سے پہلے سرکل بکوٹ پر بوئی کے بمبہ سردار ۔۔۔۔ حسن علی خان ۔۔۔۔ کی حکمرانی تھی۔  سردار حسن علی خان کے دادا کو انگریزوں نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے نکال کر بوئی میں آباد کیا تھا ۔۔۔۔ اسے ککمنگ سے لیکر بالا کوٹ تک جاگیر بھی عطا کی مگر اس شخص نے اپنی جاگیر میں 1952 تک کوئی پرائمری سکول، کوئی مرکز صحت یا عوامی فلاح کا کوئی منصوبہ بنانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ۔۔۔۔ اس بات کو جنوبی سرکل بکوٹ میں بھی بری طرح محسوس کیا جا رہا تھا اور پاکستان کے پہلے انتخابات میں سرکل بکوٹ کے اکثریتی ڈھونڈ عباسی قبیلہ نے بمبہ حکمرانی کا طوق دریائے جہلم میں پھینکنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔۔ مگر سرکل بکوٹ میں ملکوٹ، بیروٹ، بکوٹ اور لورہ اس پر متفق نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔۔ 1935 کے برصغیر کے پہلے انتخابات میں لورہ اور بکوٹ کے درمیان ایک معاہدے کے تحت اس وقت کا الیکشن لورہ کے حوالے کیا گیا اور اگلے الیکشن میں بکوٹ کی باری تھی، 1945 کے انتخابات میں مبینہ طور پر لورہ نے اس معاہدہ کی پاسداری سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں سرکل بکوٹ سے دو امیدوار سامنے آئے اور اس کے نتیجے میں سردار حسن علی خان کامیاب قرار پائے ۔۔۔۔ اب ملک آزاد ہو چکا تھا اور فیصلہ بھی کرنا  ضروری تھا کہ قیادت اب موجودہ یو سی بکوٹ سے لانی ہے ۔۔۔۔ اس کنونشن میں تمام ڈھونڈ عباسی برادری نے فیصلہ کیا کہ ۔۔۔۔ بجائے باہمی لڑائی جھگڑے اور رنجشوں کے ۔۔۔۔ سب کے دینی رہبر و رہنما اور روحانی پیشوا ۔۔۔۔۔ 

 حضرت پیر صاحبزادہ حقیق اللہ بکوٹیؒ ۔۔۔۔ کو صوبائی اسمبلی کے حلقے سرکل بکوٹ کا امیدوار بنایا جاوے ۔۔۔۔ حضرت بکوٹی جو اس کنونشن کی صدارت بھی کر رہے تھے ان سے رائے مانگی گئی تو آپ نے انکار کر دیا ۔۔۔۔ اس سلسلے میں عمائدین علاقہ نے انہیں ہی اس نشست کا آئیڈیل اور درست امیدوار قرار دیا اور انہیں الیکشن لڑنے پر آمادہ بھی کیا ۔۔۔۔ آخر میں ان کا ہی سرحد قانون ساز اسمبلی کے امیدوار کے طور پر اعلان کیا گیا ۔۔۔۔ اس موقع پر سردار ایوب خان، سردار کالا خان اور دیگر چوٹی کے لیڈروں نے حضرت پیر صاحبزادہ حقیق اللہ بکوٹی کے حق میں تقاریر کیں اور عہد کیا کہ ۔۔۔۔ 
حضرت پیر صاحبزادہ حقیق اللہ بکوٹی کو ہی ڈھونڈ عباسی برادری ووٹ دے کر کامیاب بناوے گی ۔۔۔۔ تقریب کے آخر میں بیروٹ سے سرکل بکوٹ کے پہلے شاعر ۔۔۔۔ مولانا یعقوب علوی بیروٹویؒ ۔۔۔۔ نے فی البدیع یہ نظم ۔۔۔۔ جلسہ کے حاضرین کی تالیوں میں سنائی ۔۔۔۔۔۔۔ یہ نظم معرکہ فقر و سلطانیت ۔۔۔۔ کے عنوان سے ان کی غیر مطبوعہ کتاب ۔۔۔۔ نغمہ جہاد ۔۔۔۔ میں  بھی شامل ہے اور اس لنک میں پڑھی جا سکتا ہے۔
حسن علی خان ادھر ہیں اور حقیق اللہ ادھر
ہے دنیا پرستی ادھر اور دیں کا فیضاں ادھر
 عیسوی کے بعد خونخوار سکھا شاہی کے دوران ۔۔۔۔ جوں جوں کوہسار کے قبائل پر مظالم میں اضافہ ہو رہا تھا توں توں وہ بھی ایسی ہر ہر جدوجہد اور کوشش کا ہراول دستہ بن کر آگے بڑھے جو اس طوفان بد تمیزی کیخلاف کوہسار میں کہیں بھی شروع ہوتی ۔۔۔۔ اہلیان کوہسار نے خانوادہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے دو مجاہدین سید شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کی قیادت میں آخری معرکہ سر کیا اور سرکل بکوٹ سے مری اور لورہ تک جگہ جگہ شہر خموشاں آباد کئے ۔۔۔۔ اس کے بعد آخری کوشش معرکہ مری کی صورت میں 1857میں سردار شیر باز خان شہید کی قیادت میں کی گئی اور ایک نسوانی ٹیکنیکل غلطی کے سبب ۔۔۔۔ اہلیان کوہسار کے آج کیلئے ہمارے بزرگوں اور مجاہدین نے نہ صرف اپنا کل قربان کیا ۔۔۔۔ بلکہ ۔۔۔۔۔ کوہسار کا ہر ہر گائوں، گراں، ہل اور ڈھوک کے ہر ہر گھر سے آگ کے بھانبھڑ بھڑکنے لگے ۔۔۔۔ آج کے برمی مظلوم و محکوم، بے کس و بے بس مسلمانوں کی طرح ۔۔۔۔ اس عہد کے قبائل کوہسار کو بھی اپنی جان، مال، عزت و آبرو بچانے کیلئے کوہسار بھر کی نکروں اور ناقابل رسائی پہاڑی چوٹیوں اور مقامات کی جانب مستقل بہکیں لے جانی پڑیں اور وہ واپس اس وقت آئے جب امن ہو گیا تھا۔
سرکل بکوٹ کے سرسید، جنہوں نے انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کا خواب دیکھا
میرا رب کبھی بھی اپنے محکوم اور مظلوم بندوں کو بے آسرا نہیں چھوڑتا ۔۔۔۔ کوئی نہ کوئی سر سید ان کی رہبری، رہنمائی، حوصلہ افزائی اور مدد کیلئے پیدا کر دیتا ہے ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ میں موجودہ یونین کونسل بکوٹ ہمیشہ سے زرخیز دماغوں کی سر زمین رہی ہے ۔۔۔۔ یہاں پر ایک فیوڈل لارڈ ۔۔۔۔ سردار حسن علی خان ۔۔۔۔ رہتے تھے۔ ان کے ہاں 1812 میں ایک بچہ پیدا ہوا ۔۔۔۔ نام دوست محمد رکھا گیا، اس نے معرکہ بالا کوٹ اور اس کے بعد ہری سنگھ نلوہ کے کوہسار میں مظالم کے خلاف قبائل کوہسار کی پروانہ وار جنگ آزادی میں نہ صرف خود حصہ لیا بلکہ جب مری میں ۔۔۔۔ سردار شیرباز خان اور ان کے ساتھوں کو توپ زد کیا گیا تو وہ اس سانحہ فاجعہ کا چشم دید گواہ بھی تھا ۔۔۔۔ ان واقعات نے اسے دوست محمد کے بجائے ۔۔۔۔ سردار دوست محمد خان ۔۔۔۔ بنا دیا، اس نے اپنی ڈھونڈ عباسی برادری سمیت تمام چھوٹے بڑے قبائل کو مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔
اگر تم نے اپنی زندگی، اپنی املاک اور اپنی عزت وع آبرو بچانی ہے تو یہ بات اب تسلیم کرنا پڑے گی کہ ۔۔۔۔
****** سکھا شاہی کا کوہسار سے خاتمہ ہو چکا ہے اور اب ہمارے نئے حاکم دیار فرنگ کے انگریز ہیں ۔
****** انگریز اب کوئی واہمہ نہیں اور وہ زندہ حقیقت ہیں ۔
****** آگے بڑھنے کیلئے ان سے تعاون ضروری ہے ۔
****** ہم تب ہی کامیاب ہوں گے جب مالی اور تعلیمی اعتبار سے مستحکم ہوں گے ۔
وہ اپنی اس علاقائی حکمت عملی کی بدولت ۔۔۔۔ ایبٹ آباد انتظامیہ کے برابر کرسی نشین قرار دئیے گئے ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ میں ہونے والے ہر معاملہ میں ان سے مشاورت کی جانے لگی ۔۔۔۔ 1865 میں جب ہزارہ میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کی تشکیل ہوئی تو سردار دوست محمد خان کے کہنے پر ہی سرکل بکوٹ کے بیچ پولیس سٹیشن اپنے گھر کے قریب مرکزی مقام پر بنوایا، اپنی اراضی بھی پیش کی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ ۔۔۔۔ برٹش پولیس سرکل بکوٹ میں نہ دندنائے اور نہ ہی ان کی اپنی ڈھونڈ عباسی برادری کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی یا ظلم ہو ۔۔۔۔ انہوں نے سرکل بکوٹ بھر میں سب سے پہلے یو سی بکوٹ میں ورنیکلر پرائمری سکول بنوایا تا کہ ۔۔۔۔ ان کی برادری سمیت تمام قبائل جدید تعلیم سے استفادہ کر سکیں ۔۔۔۔ انہوں نے اپنے دو بیٹوں سردار آزاد خان اور سردار عبدالرحمان خان کو بھی جدید تعلیم دلوائی، یہ سلسلہ آگے بھہ چ؛ا اور ان کے ایک پوتے سردان عثمان نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے سیاست میں بھی نام کمایا، دیگر پوتوں میں سردار خلیل عباسی ہزارہ ہل ٹرسٹ کے سیکرٹری اور سردار سعید عباسی آڈیٹر جنرل آف آزاد کشمیر اس لئے بنے کہ اپنے دادا کی وصیت پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔۔۔۔ ایک ان کے بیٹے آزاد خان نے بھی اعلٰی تعلیم حاصل کی اور وہ کمیشن آفیسر اور بعد میں برٹش انڈیا کے ڈپلومیٹ بھی بنے ۔۔۔۔ سردار دوست محمد خان نے سفر کے ذرائع میں بھی آسانیاں پیدا کرنے کیلئے نتھیاگلی اور کوہالہ براستہ بکوٹ تک گھوڑوں کی پگڈنڈی بھی بنوائی ۔۔۔۔ ان کے چمبیاٹی کے ڈوگرہ کشمیر میں پہلے ڈی ایس پی سردار محمد اکرم خان کے ساتھ رشتہ داریاں بھی تھیں اور اس طرح دونوں خاندانوں کے افراد کا دونوں طرف آنا جانا بھی تھا ۔۔۔۔ 1870 کے لگ بھگ ایک شادی کی تقریب میں سردار دوست محمد خان نے سردار اکرم خان کے ساتھ اپنی برادری ڈھونڈ عباسیوں کے اندر فضول رسومات اور اس کے نتیجے میں ان کی اقتصادی بد حالی پر تبادلہ خیال کیا ۔۔۔۔ بکوٹ سمیت بیروٹ اور دیگر علاقوں میں بھی ہندو ساہوکار تھے جو غمی خوشی کے موقع پر غریب مسلمانوں کو قرض دیتے اور جب یہ قرض سود سمیت قرض دار کے بس میں نہ رہتا تو ساہو کار اس کے خلاف ڈگری حاصل کر کے اسے جائیداد، گہنے اور دیگر املاک سے محروم کر دیتا ۔۔۔۔ یہ صورتحال کوہسار کے مسلمانوں کیلئے سخت تکلیف دہ تھی اور اس کیخلاف سرکل بکوٹ میں موضع سنگل کے ایک عالم دین ۔۔۔۔ مولانا فقیراللہ سنگلوی ۔۔۔۔ برسوں سے ایک خاموش تحریک بھی چلا رہے تھے مگر کوئی سنتا نہیں تھا ۔۔۔۔ 1888 میں سرکل بکوٹ کا سر سید اپنے رفیق اعلیٰ کے پاس پہنچ گیا ۔۔۔۔ 1889 میں دھیر کوٹ کے دو ڈھونڈ عباسی خاندان ہندو ساہو کاروں کے ہاتھوں اپنی املاک اور اراضی سے محروم ہو گئے ۔۔۔۔ ان مسلمان خاندانوں کی ساہوکاروں کے ہاتھوں ضبط املاک اور اراضی بازیاب کرانے کے ساتھ1890 میں چمبیاٹی میں ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کی بنیاد رکھی گئی، سردار آزاد خان اس انجمن کے مشیر مقرر کئے گئے ۔۔۔۔ اس لئے دیکھا جاوے تو اس انجمن کا اصل بانی اور صلاح کار یو سی بکوٹ کےسر سید ۔۔۔۔ سردار دوست محمد خان ۔۔۔۔ ہی تھے۔
 حضرت پیr حقیق اللہ بکوٹی کی کامیابی میں انجمن کا کردار
ایک طرف شمالی سرکل بکوٹ میں سردارحسن علی خان کے آباو اجداد بھی ایبٹ آباد انتظامیہ کے کرسی نشین بنے ، انہوں نے گڑھی حبیب اللہ کو اپنی جاگیردارانہ اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ۔۔۔۔ وہاں ہی تھانہ بھی اپنی انگریز کی عطا کردہ حاکمیت کو مزید مستحکم کرنے کیلئیے بنوایا ۔۔۔۔ مگر گڑھی حبیب اللہ میں پرائمری سکول 1925 تک نہیں بن سکا اور نواب ابن نواب سردار حسن علی خان بکوٹ ورنیکلر سکول کے طالب علم رہے ( یہ بات بکوٹ کے صحافی نوید اکرم عباسی نے راقم الحروف کو بتائی تھی) ۔۔۔۔ بوئی کے ان نوابوں کو تمام تفویض کردہ انگریزی اختیارات کے باوجود اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ ککمنگ سے گڑھی حبیب اللہ تک اپنی جاگیر میں کوئی پختہ راستہ ہی بنوا دیتے ۔۔۔۔ وزیر اعلیٰ اقبال خان جدون نے بوئی کو گڑھی حبیب اللہ سے سڑک کے ذریعے 1975 میں جوڑا جبکہ 1998 وزیر اعلیٰ سردار مہتاب احمد خان نے کوہالہ سے براستہ ککمنگ بوئی تک روڈ سے لنک کیا اور ۔۔۔۔۔ بمبہ سردار اور امیدوار قومی اسمبلی جاوید اقبال ۔۔۔۔ کی رہی سہی جاگیرداریت اور نوابی پر اسی کے کھیت میں ہل چلا کر اس کا غرور خاک میں ملا دیا ۔۔۔۔ اسی سردار حسن علی خان کا ایک پوتا رستم خان آج کل ۔۔۔۔ مسلم لیگ نون(مہتاب) کا بوئی میں عہدایدار بھیئ ہے ۔اس طرف انسانیت مجروح و پامال و ذلیل
احترام عزت انسانیت، یکساں ادھر
ہے مسلط اس طرف ذہنوں پہ شوق لیڈری
خدمت اسلام و مسلم کا جنو ں پنہاں ادھر

1951 کے انتخابات کے نتائج آئے تو تاجدار بکوٹ ۔۔۔۔ حضرت پیر صاحبزادہ حقیق اللہ بکوٹی ۔۔۔۔۔ واضح اکثریت سے کامیاب ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔ کامیابی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہوئی تھی مگر اس کے پیچھے جو قوت کارفرما تھی وہ ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کی تھی، سیاسی قوت تو سابق کانگریسی لیڈر شپ یعنی سرحدی گاندھی کی بھی تھی اور وہ سردار حسن علی خان کی پشت پر بھی تھا مگر مقامی ووٹروں نے اسے چاروں شانے چت گرا دیا تھا ۔۔۔۔ اب اس کی ساری جاگیرداریت، پاکستان سے پہلے کی سیاسی قوت، اپنی جاگیر میں بسنے والے مقامی لوگوں پر ظلم و ستم کا جنازہ بھی نکل گیا تھا ۔۔۔۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے ایک ہفتہ بعد ہی اس پر فالج گر گیا اور اسی مرض نے اسے اوپر پہنچا دیا ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے پہلے مسلم لیگی ایم ایل اے نے سرحد قانون ساز اسمبلی میں حلف اٹھانا چاہا مگر حضرت پیر صاحبزادہ حقیق اللہ بکوٹی اس حلف نامے پر اعتراض کر دیا کہ ۔۔۔۔ میں ملک و قوم کے ہر حکم ۔۔۔۔ کا نہیں بلکہ ۔۔۔۔ ملک و قوم کے ہر اس حکم اور قانون کا وفادار رہوں گا جو قرآن و سنت سے متصادم نہ ہو ۔۔۔۔ کے الفاظ کا اضافہ کیا جاوے ۔۔۔۔ حضرت پیر صاحبزادہ حقیق اللہ بکوٹی کے اس موقف کی تمام ممبران نے بھی تائید کی اور سپیکر نے حلف نامے میں ان الفاظ کا اضافہ کیا تو تمام ممبران نے دوبارہ حلف اٹھایا ۔۔۔۔ اس دوران اطلاع آئی کہ ۔۔۔۔ سردار ایوب خان اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں تو ۔۔۔۔ حضرت پیر صاحبزادہ حقیق اللہ بکوٹی فوراً چمبیاٹی پہنچے اور ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کے بانیوں میں سے ایک سردار ایوب خان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔۔۔۔ بتایا جاتا ہے کہ سردار ایوب خان کے جنازہ سے بڑا جنازہ کشمیر کے کوہساروں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ نماز جنازہ میں کشمیر، سرکل بکوٹ، مری اور سرکل لورہ کے تمام سیاسی، علمی، سماجی اور ہر مکتب فکر نے شرکت کی اور انہیں اپنے والد سردار اکرم خان، اپنی والدہ مرحومہ کے پہلو میں سپر خاک کیا گیا ۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ تیرے گھر کی نگہبانی کرے 
چیف جسٹس کشمیر سردار ایوب خان  اور کشمیری مسلمان
بعض مہاتما(Legend)  قسم کی شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیتی ہیں ۔۔۔۔ ان کے جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب لاکھوں لوگوں کی قسمت بدل دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ کچھ یہی بات بکوٹ کے سردار دوست محمد خان ۔۔۔۔ اور چمیاٹی آزاد کشمیر کے باپ بیٹا سردار اکرم خان اور سردار ایوب خان کے بارے میں کہی جا سکتی ہے، ان کی 127 برس قبل قائم کردہ  ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کا ہی فیض ہے کہ ۔۔۔۔ سردار مہتاب کے پی کے کے پہلے وزیر اعلیٰ اور پھر گورنر بنے اور دیول کے شاہد خاقان عباسی، کھلی اور بند کیا ۔۔۔۔؟ صدیوں بعد بھی دیکھے جانے والے خوابوں کی کرسی وزارت عظمیٰ تک 127 برسوں کی مختصر مدت میں پہنچے ہیں ۔۔۔۔ دعا دیجئے ان اپنے بزرگوں کو جو ۔۔۔۔۔  انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کی صورت میں آپ کی راہوں کو روشن کر گئے ہیں ۔۔۔۔ خلافت عباسیہ بھی اگرچہ ایک خورشید جہاں تاب کی حیثیت رکھتی ہے مگر ۔۔۔۔ اس کے درمیان آٹھ صدیوں کا فاصلہ ہے ۔۔۔۔ ایک صدی میں جب کسی کی چار یا پانچ پشتیں گزر جائیں تو جینیٹکس سائنس کے مطابق ۔۔۔۔ مزاج، روایات، تاریخ، ثقافت، جغرافیہ سمیت بہت کچھ بدل جایا کرتا ہے اور اس سلسلے کی شروعات پھر وہاں سے ہی کرنا پڑتی ہے جہاں ۔۔۔۔ سردار دوست محمد خان ۔۔۔۔ نے سرکل بکوٹ کا سر سید بن کر خواب دیکھا اور ۔۔۔۔ سردار اکرم خان، سردار ایوب خان، سردار کالا خان اور سردار نور خان نے اسے اس حقیقت کا روپ دیا جو ۔۔۔۔ آج ملک کے سب سے بڑے سول منصب  کے تخت کی مسند نشیں ہے ۔
سردار ایوب خان کو ڈوگرہ ہندو ریاست میں ۔۔۔۔ ایوان عدل کا سب سے بڑا منصب ۔۔۔۔ تھالی میں رکھ کر گلدستوں کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا، اس کے پس منظر میں  ان کی اہلیت، قابلیت اور لیڈر شپ  کوالیٹیز اور صلاحیتوں کا بڑا عمل دخل تھا ۔۔۔۔ ان کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن کے ذکر سے ایمان تازہ ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ 1935  کے جولائی میں سرینگر میں ایک بد بخت ہندو نے توہین قرآن کا ارتکاب کیا ۔۔۔ پوری ریاست کشمیر شعلہ جوالہ بن گئی ۔۔۔۔ پونچھ سے بھی اس ناپاک جسارت کیخلاف احتجاج کیلئے سینکڑوں مسلمان سرینگر اور جموں پہنچ گئے ۔۔۔۔ انہیں ٹرکوں میں بھر بھر کر زندان میں ڈال دیا گیا ۔۔۔۔ اس روز جمعہ تھا اور زندان میں قید مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے بیتاب تھے ۔۔۔۔ انہیں جیل میں وضو کیلئے جو پانی استعمال کرنے کو کہا گیا وہ غسل خانوں سے بہہ کر آ رہا تھا ۔۔۔۔ نماز جمعہ کی ادائیگی میں ابھی ایک ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا ۔۔۔۔ سردار ایوب خان اس جیل کے سامنے سے گزرے ۔۔۔۔ قیدی چیخ پڑے، سردار صاحب نے بھی ادھر ادھر دیکھا تو بدبودار اور ناپاک پانی ہی نظر آیا ۔۔۔۔۔ انہوں نے قیدیوں سے پوچھا کہ ۔۔۔۔ اگر میں تمہیں نماز جمعہ کیلئے چھوڑوں تو کیا واپس جیل میں آ جائو گے ۔۔۔۔ سب نے نعرہ لگا دیا کہ کیوں نہیں، ہم مسلمان ہیں اور کبھی وعدہ خلافی نہیں کریں گے ۔۔۔۔ سردار صاحب نے داروغہ جیل (جیل سپرنٹنڈنٹ) کو طلب کیا اور قیدیوں کے دروازے کھولنے کیلئے کہا ۔۔۔۔ اس کے ہاتھ پائوں کانپ رہے تھے اور اس کی باڈی لینگویج چغلی کھا رہی تھی کہ وہ ان کا حکم ماننے سے انکاری ہے ۔۔۔۔ اسی وقت انہوں نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئےکاغذ پر جیل کے دروازے کھولنے کا حکم دیا ۔۔۔۔ جب
پھر بھی دروازے نہ کھلے تو انہوں نے خود اس کے ہاتھوں سے چابی لیکر جیل کو کھول دیا ۔۔۔۔ مسلمانوں کے چہرے کھل اٹھے ۔۔۔۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد واپس آنے والے قیدیوں کی گنتی کی گئی تو ۔۔۔۔ ان میں ایک قیدی گنتی سے زیادہ تھا ۔۔۔۔ اگلے روز ان کے پاس مہاراجہ رنبیر سنگھ کی طرف سے Explanation Letter ان کے چیمبر میں ان کی ٹیبل پر موجود تھا ۔
جیف جسٹس سردار ایوب خان ایک مقدمہ کی سماعت کر رہے تھے ۔۔۔۔ مدعی اور مدعاالیہ دونوں ہی کشمیری پنڈت تھے مگر مدعا الیہ ۔۔۔۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ  ۔۔۔۔ کا بہنوئی تھا، اس نے مدعی کی زمین  پر ناجائز قبضہ کر رکھا تھا ۔۔۔۔ مہاراجہ بھی چاہتا تھا کہ فیصلہ اس کے بہنوئی کے حق میں آئے اور وہ کئی مواقع پر اس کا دھیمے لفظوں میں اس کا اظہار بھی کر چکا تھا ۔۔۔۔ مدعاالیہ اتنا مغرور تھا کہ تاریخ پر بھی نہ آتا تھا ۔۔۔۔ سردار ایوب خان نے اسے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں  گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ۔۔۔۔ مہاراجہ کا یہ بہنوئی پا بہ سلاسل کانپتے ہوئے پولیس اہلکاروں کے ساتھ ۔۔۔۔ سردار ایوب خان ۔۔۔۔ کے روبرو کھڑا تھا ، آپ نے پھر کیس کی سماعت شروع کی اور صرف تین تاریخوں کے بعد اسے مجرم قرار دے کر دوسرے مظلوم ہندو کے حق میں فیصلہ سنا دیا ۔۔۔۔ ان کی انصاف فراہم کرنے کی یہ روایت ان کی اولاد میں بھی جاری رہی ۔۔۔۔۔ یہ روایت دھیرکورٹ میں ان کے سیشن جج بیٹے نے بھی نبھائی ۔۔۔۔ بیروٹ سے برادرم عطاالرحمان عباسی روایت کرتے ہیں کہ ۔۔۔۔ سردار ایوب خان کے سب سے بڑے بیٹے اور لبریشن فرنٹ آزاد کشمیر کے چیئرمین ۔۔۔۔ سردار معروف اختر خان کو اپنے بھائی کی عدالت میں ۔۔۔۔ کسی مقدمہ میں  بطور گواہ پیش ہونا تھا مگر دو تاریخیں گزر گئیں اور وہ پیش نہ ہو سکے اور سیشن جج بھائی نے تیسری تاریخ پر ان کے وارنٹ گرفتاری جا ری کر دئیے اور دھیرکوٹ پولیس نے سیشن جج کے بھائی کو  پابجولاں عدالت میں پیش کیا اور بیان ریکارڈ کرایا ۔۔۔۔ یہ عدالتی شمعیں روشن کرنے والے دیدہ ور کہاں چلے گئے ہیں ۔۔۔۔ ؟
سرکل بکوٹ کی تاریخ میں ۔۔۔۔۔ سردار حسن علی خان ۔۔۔۔ کےنام سے دو شخصیات کے نام ملتے ہیِں ۔۔۔۔ ایک سرکل بکوٹ کے سر سید سردار دوست محمد خان کے والد گرامی ہیں ۔۔۔۔ جبکہ دوسرے حسن علی خان  ۔۔۔۔ بمبہ قبیلہ کے سردار اور بوئی کے جایگیر دار تھے ۔۔۔۔  موجودہ یو سی بکوٹ کے سردار حسن علی خان جمبیاٹی کے سردار اکرم خان کے ماموں تھے اور یہ بھی حسن اتفاق ہی ہے کہ  ۔۔۔۔ سردار حسن علی خان کے بیاہی یا سمدھی اور سردار اکرم خان کے والد بھی سردار دوست محمد خان اور ان کا اپنا بیٹا بھی دوست محمد خان تھا ۔۔۔۔۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
انجمن اور برصغیر کے پہلے انتخابات میں بسرداران روات کی جیت
18جنوری1936 کو برصغیر کے پہلے انتخابات کا اعلان ہوا ۔۔۔۔۔ پنجاب قانون ساز اسمبلی کی 86  نشستوں میں مری راولپنڈی کی مشترکہ نشست نمبر ایک تھی ۔۔۔۔ پہلی پہلی بات تھی، کسی کو معلوم نہیں تھا کہ انتخابات کیا ہوتے ہیں مگر اتنا ضرور ادراک ہپو گیا تھا کہ ۔۔۔۔ انتخابات کا مطلب جس علاقے سے کوئی ایم ایل اے بننا چاہتا ہو وہ وہاں سے ووٹ کی صورت میں حمایت حاصل کرے گا ۔۔۔۔ شمالی ضلع راولپنڈی کی اکثریتی آبادی ڈھونڈ عباسیوں پر مشتمل تھی اور آج بھی ہے ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ اس وقت برادری امور میں بہت فعال تھی اور اس کی ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے ۔۔۔۔ مری اور اس کے لوگ بر صغیر بھر میں اب محتاج تعارف نہ تھے ۔۔۔۔ لکھنئو سمیت ہندوستان کے کسی بھی شہر سے کوئی دانشور ، شاعر، ادیب، مورخ یا صحافی چلتا ۔۔۔۔ سیدھا مری آ کر رکتا اور سرداران روات کا مہمان بنتا ۔۔۔۔ اپنی قابلیت کے انجمن کے پلیٹ فارم پر  شاعری کی صورت میں جوہر دکھاتا اور داد پاتا ۔۔۔۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سرداران روات نے انجمن کا ایک کنونشن بلایا ۔۔۔۔ کشمیر، سرکل بکوٹ اور سرکل لورہ کے علاوہ مری راولپنڈی کے تمام ڈھونڈ سردار روات میں جمع ہوئے ۔۔۔۔ سردار نور خان نے ان کی میزبانی کی اور سوال کیا کہ ۔۔۔۔ انتخابات میں علاقے کے کس سردار کے سر پر ایم ایل اے کی پگ یا دستار سجائی جاوے ۔۔۔۔  کنونشن کے تیسرے دن تمام ڈھونڈ سرداروں نے ایک مشترکہ قرار داد کے ذریعے ۔۔۔۔ سردار نور خان ۔۔۔۔ کو قانون ساز اسمبلی پنجاب کے حلقے ون سے متفقہ امیدوار نامزد کر دیا اور ان کی حمایت میں اپنی جانی، مالی اور ووٹ دینے کی حمایت  اور ان کے حق میں سیاسی مہم چلانے کا اعلان کیا ۔۔۔۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ ۔۔۔۔۔ سردار نور خان ۔۔۔۔ کی کامیابی تمام ڈھونڈ عباسی قبیلہ کی عزت اور وقار کا سوال ہے اور اب ان کیلئے Do or Die  اور Now  or Never کا سوال ہے ۔۔۔۔ آگے بڑھو اور یہ نشست جیت کر دکھائو ۔۔۔۔ اس فیصلہ کے بعد سردار نور خان جہاں بھی انتخابی مہم کے سلسلے میں گئے ۔۔۔۔ بعض مقامات پر انہیں سونے کے تاج بھی پہنائے گئے ۔

روات ۔۔۔۔۔۔ سردار نور خان کا کامیابی کے بعد عمائدین علاقہ کے ساتھ  گروپ فوٹو
18جنوری ۔۔۔۔ پولنگ ڈے تھا ۔۔۔۔ ہر انتخابی کیمپ میں ایک بیل ذبح کیا گیا اور ووٹروں کی سہولت کیلئے چائے، پانی اور حقہ کا بھی انتظام تھا ۔۔۔۔ اس وقت ہر کوئی ووٹر نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔۔ انتخابی قوانین کے مطابق ووٹر کی اہلیت صاحب جائیداد ہونا اور سالانہ 25 روپے مالیہ دینے کا میرٹ تھا، اس حوالے سے ہر گائوں اور قصبے کا سردار اپنے ذاتی خادمین کے علاوہ تفریح اور گوڈے کندھے دبانےوالے مزارعین کی فوج کے ساتھ کیمپ میں موجود تھا ۔۔۔۔ ہر ووٹر کی اپنی شان و شوکت اور دبدبہ نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔ اس کے کوئی ہاتھ دھلا رہا تھا، کوئی اس کے سامنے کھانے چن رہا تھا اور کوئی اس کے زرق برق لباس کی سلوٹیں سیدھی کرنے میں مصروف تھا ، ان سرداروں کی چارپائی کے سامنے موٹے موٹے لکڑی کے منڈھ تخائے جا رہے تھے اور چائے بھی چل رہی تھی، انتخابی فہرست  سے جب ووٹر کا نام پکارا جاتا تو مامیدوار یا اس کا نمائندہ خود اس کلے پاس آ کر ووٹ پر انگوٹھا لگانے کا طریقہ سمجھاتے ہوئے اسے پولنگ بوتھ تک لے جاتا، امیدوار یا اس کا نمائندہ اس کی ووٹ دے کر واپسی پر اس کے سامنے بار احسان سے جھکتا اور ووٹر کے باریش چہرے پر احسان کرنے والے کی طرح مسکراہٹ رقص کر رہی ہوتی، اس کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھی جاتی ۔۔۔۔ سردار نور خان کا مقابلہ راولپنڈی کے ایک برطانوی اعلیٰ تعلیم یافتہ وکیل بیرسٹر فضل الٰہی سے تھا ۔۔۔۔ ووٹنگ انتہائی سردی کے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں صبح دس بجے شروع ہوئی اور چھ بجے شام تک جاری رہی اور ان انتخابات کے رزلٹس کیلئے ۔۔۔۔ یکم فروری ۔۔۔۔ کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ۔
سرکل بکوٹ کے پہلے الیکشن اور انجمن کی ثالثی
انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ۔۔۔۔ موجودہ یو سی بکوٹ میں سردار آزاد خان کے گھر سرکل بکوٹ اور لورہ کے تین سرداروں نے سر جوڑ لئے ۔۔۔۔ ان تین طاقتور سرداروں میں میزبان سردار آزاد خان (بکوٹ)، سردار سید اکبر خان (کالا بن، ملکوٹ) اور عبدالرحمان خان (نگری ٹوٹیال ، لورہ ) شامل تھے ۔۔۔۔ تینوں ہی الیکشن لڑنا چاہتے تھے ۔۔۔۔  سرحد قانون ساز اسمبلی کو 38حلقوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں حلقہ سرکل بکوٹ، لورہ اور گلیات کی نشست کا نمبر 38  یعنی آخری تھا ۔۔۔۔ جب  یہ تینوں سردار کسی متفقہ فیصلے پر نہ پہنچ سکے تو ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ مری اور کشمیر کو مداخلت کرنا پڑی اور تین روز کے زبردست بحث مباحثہ کے بعد سردار یوسف خان آف چمبیاٹی اور سردار کالا خان کو ثالث مقرر کر کے اس حلقے کے امیدوار کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیدیا گیا ۔۔۔۔ انجمن نے اس موقع پر یہ فیصلے کئے ۔
***** قرار دیا جاتا ہے کہ سرحد  کی قانون ساز اسمبلی کے حلقے 38  کیلئے سردار آزاد خان اور سردار سید اکبر خان  لورہ سے سردار عبدالرحمان خان کے حق میں ان شرائط کے تحت دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہیں ۔ شرائط یہ ہیں جنہیں لورہ کے ۔۔۔۔ سردار عبدالرحمان خان ۔۔۔۔ نے اپنی برادری اور دیگر رفقا کے مشورے سے قبول کیا ہے ۔
1۔۔۔۔ سردار عبدالرحمان خان 1936  کے انتخابات میں حصہ لیں گے مگر ۔۔۔۔ کسی بھی وقت اگلے یا اس سے اگلے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے، اگلے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار سردار آزاد خان (بکوٹ) اور اس سے اگلے میں سردار سید اکبر خان (کالا بن، ملکوٹ) امیدوار ہوں گے ۔
2۔۔۔۔ موجودہ الیکشن میں سرکل بکوٹ میں سردار آزاد خان اور سردار سید اکبر خان ۔۔۔۔  سردار عبدالرحمن کی سیاسی حمایت کریں گے اور برادری سمیت ان کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔
3۔۔۔۔ اگلے اور اس سے اگلے الیکشن میں لورہ کے سردار عبدالرحمٰن خان سرکل لورہ اور گلیات میں سردار آزاد خان اور سردار سید اکبر خان کی حمایت میں انتخابی مہم چلا کر اپنے اور اپنی برادری کے ووٹوں سے کامیاب بناویں گے ۔
یہ معاہدہ ۔۔۔۔ روات، مری سے سردار کالا خان کی موجودگی میں ہوا اور اسے سردار ایوب خان آف چمبیاٹی نے بقلم خود  جرگہ کے روبرو لکھا ۔۔۔۔ اس پر تنینوں فریقین نے بلا کسی جبر و اکراہ بقلم خود دستخط بھی کئے ہیں ۔
یکم فروری 1936 کو نتخابی نتائج کا اعلان ہوا تو ۔۔۔۔ مری راولپنڈی سے سردار نور خان مری راولپنڈی اور سرکل بکوٹ، لورہ اور گلیات سے سردار عبدالرحمٰن اپنے مد مقابل چھ امیدواروں کو ہزارہ میں کل تین ہزار ووٹ میں سے 580  کی لیڈ سے شکست فاش دے چکے تھے ۔۔۔۔ کامیابی کی پشت پر ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کھڑی تھی ۔
سردار نور خان  ۔۔۔۔ کی برصغیر کے پہلے الیکشن میں کامیابی اتنی اہم اور بڑی تھی کہ ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ مری ۔۔۔۔ کے پہلے جنرل سیکرٹری سردار سلطان خان سے یہ خوشی برداشت نہ ہو سکی اور اسی رات وہ حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے ۔۔۔۔ روات میں ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کیا گیا اور کشمیر سے لورہ تک ڈھونڈ عباسیوں کے علاوہ ہر برادری کو دعوت دی گئی اور سردار نور خان نے اس ضیافت میں شریک ہر فرد سے مصافحہ کیا اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا ۔۔۔۔
تحریک پاکستان اور انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر کوہسار کے برٹش فوجی ۔۔۔۔ کوئی حاضر سروس اور کوئی پلسنی (پنشن لیکر) گھر آ چکے تھے اور آزادی کی صبح صادق بھی طلوع ہوتی نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔ یو سی بیروٹ میں علامہ عنایت اللہ المشرقیؒ کی تحریک احرار بہت فعال تھی ۔۔۔۔ اس کے بیلچہ بردار دستے جب کہیں بھی مارچ پاسٹ کرتے تو غیر مسلموں پر دھاک بیٹھ جاتی مگر ۔۔۔۔ آنے والے وقت میں اس کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔۔ بیروٹ میں اس کے سرکردہ رہنمائوں میں سردار محمود خان، مولانا یعقوب علوی بیروٹوی، عباس خان، حاجی اقبال خان، ولی احمد خان وغیرہ تھے ۔۔۔۔ 1945 میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے دورہ اور کوہالہ و مری میں خطاب کے بعد ۔۔۔۔ کوہسار کی ساری سیاسی فضا تبدیل ہو گئی تھی ۔۔۔۔ غیر مسلموں پر ہیبت طاری تھی اور کوہسار کے رحمت اللعالمین ﷺ کے نام لیوا آزادی کا انجانا جوش لئے کچھ کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہو رہے تھے ۔۔۔۔

تین فروری 1945 کو  ۔۔۔۔ تحریک احرار کا ایک  اہم اجلاس عباس خان کے گھر سانٹھی، بیروٹ میں منعقد ہوا ۔۔۔۔ جس میں ۔۔۔۔ عباس خان اور ان کی برادری کے علاوہ بیروٹ سے لیکر بکوٹ تک ساری احراری قیادت موجود تھی ۔۔۔۔ اجلاس میں پاکستان کی طرف سفر اور بدلتے حالات میں یو سی بیروٹ اور بکوٹ کے کردار کا جائزہ لیا گیا ۔۔۔۔ تاہم مولانا علوی بیروٹوی نے کہا کہ تحریک احرار اگرچہ لہو گرم رکھنے کیلئے ایک فعال تنظیم ہے مگر ۔۔۔۔ مثبت اور عملی سیاسی کردار میں اس کا کوئی حصہ نہیں اس لئے اگر ہم لوگ مسلم لیگ میں شامل ہو جاویں تو اس سے ہمارا سیاسی وجود نہ صرف تسلیم ہو گا بلکہ بیروٹ اور بکوٹ کا سیاسی وزن بھی محسوس ہو گا ۔۔۔۔ دیگر مقررین نے بھی انہی خیالات کا اضہار کیا تاہم سردار محمود خان نے اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔۔ تحریک احرار بھی جاری رہنی چائے اور ساتھ ہی ساتھ ۔۔۔۔ مسلم لیگ بیروٹ کے قیام ۔۔۔۔ کا بھی اعلان کیا جانا چائیے ۔۔۔ حاجی اقبال خان نے کہا کہ  ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کو بھی مسلم لیگ کے قیام سے اس کی فعالیت کو بھی مہمیز ملے گی اور آج کے دن اس برادری کی تنظیم کا بھی اعلان کیا جانا چائیے اور پھر اس کا الحاق  مری یا چمبیاٹی سے کیا جائے ۔۔۔۔ سردار ولی احمد خان (موجودہ وی سی بیروٹ کلاں کے ناظم ندیم عباسی کے پڑدادا) نے کہا کہ صرف مسلم لیگ کا قیام ہی نہیں اس کا کام نظر بھی آنا چائیے ۔۔۔۔۔ اجلاس کے سارے شرکا نے اس سے اتفاق بھی کیا اور ایک قرار داد کے ذریعے ۔۔۔۔ مسلم لیگ بیروٹ ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کے قیام کا اعلان کیا گیا، مسلم لیگ بیروٹ کے پہلے صدر ۔۔۔ محمد عباس خان (ممبر ڈسٹرکٹ کونسل بیروٹ خالد عباسی کے والد)، جنرل سیکرٹری مولانا یعقوب علوی بیروٹوی جبکہ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ بیروٹ کے پہلے صدر حاجی اقبال خان (چھجہ) اور جنرل سیکرٹری محمود خان (کھوہاس) کو نامزد کیا گیا ۔۔۔۔ اس کے دوسرے روز موجودہ وی سی باسیاں میں معززین کا ایک اجلاس ہوا اور انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔۔۔۔ پہلے صدر مجاہد کشمیر سردار یعقوب خان کو نامزد کیا گیا۔
یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ۔۔۔۔ 1945۔۔۔۔ پاکستان کے قیام کے  پس منظر میں انتخابات کا سال تھا مگر سرکل بکوٹ میں کوئی ہل چل نہیں تھی مگر انجمن اور مسلم لیگ کے زیر اہتمام دیول اوسیاہ، روات، کشمیری بازار، پھگواڑی، علیوٹ اور مری میں سیاسی جلسے عروج پر تھے ۔۔۔۔ اور راجہ کالا خان اسی نسبی و نسلی انجمن اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سےپنجاب اسمبلی کے دوسرے ایم ایل اے بھی منتخب ہو گئے تھے مگر سرکل بکوٹ میں سیاسی جمود(Statusco) کی وجہ سے کانگریسی سردار حسن علی خان بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر ۔۔۔۔ سرحد قانون ساز اسمبلی میں ڈاکٹر خان کی صوبائی حکومت کے  سرکل بکوٹ میں ایک مضبوط مہرے کی صورت میں بر اجمان تھے ۔۔۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔۔ 14 اگست 1947 کو وزیر اعلی ڈاکٹر خان کی طرف سے سرحد اسمبلی اور سی ایم ہائوس پر نئی اسلامی مملکت اسلامی جمہپوریہ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرانے، اسے سلامی دینے اور پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کے بعد ۔۔۔۔ 11 اگست 1947 کو ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو ۔۔۔۔ اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سرحد اسمبلی تحلیل کر کے صوبائی حکومت کو گھر بھیجنا پڑا ۔۔۔۔ اس اقدام سے سرکل بکوٹ سے کانگریسی لیڈر سردار حسن علی خان بھی ۔۔۔۔ گڑھی حبیب اللہ جانے والی بس میں بیٹھ کر بوئی آ گئے ۔۔۔۔ اور پھر ان کے اقتدار کو ایسا گرہن لگا کہ ۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کے نامزد کردہ ۔۔۔۔ حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹیؒ ۔۔۔۔ نے 1952 کے پاکستان کے پہلے الیکشن میں سردار حسن علی خان اور ان کے جاگیر دار خاندان کو ہمیشہ سے صوبائی سیاست سے آئوٹ کر دیا ۔۔۔۔ لمحہ موجود میں بوئی کے اس جاگیر دار کی نون لیگی اولاد ۔۔۔۔ کتیاں آلے سردار ۔۔۔۔ کہلواتے ہیں ۔
تحریک آزادی کشمیر میں انجمن کا فعال کردار
نومبر1947کو ماردھاڑ کی وجہ سے اہلیان کشمیر کی کوہسار میں ہجرت شروع ہوئی ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کا باسیاں میں سردار یعقوب خان کے گھر ایک اہم اجلاس ہوا جس میں کشمیریوں کی کوہسار میں نقل مکانی کی صورتحال پر غور کیا گیا ۔۔۔۔ اس موقع پر ایک قرار داد منظور کی گئی جس کے اہم نکات یہ تھے ۔
****** کشمیریوں کی ایک یا دو خاندان کوہسار کے فی خاندان کے مہمان ہوں گے ۔۔۔ گھر میں جو وسائل زیست ہوں گے وہ نصف مہاجرین میں تقسیم ہوں گے ۔
****** مہاجرین سرکل بکوٹ میں اپنے میزبان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون کرنا چاہیں تو اسے قبول کیا جاوے گا ۔
****** اگر مہاجرین یا میزبان باہمی رضا مندی سے کوئی رشتہ داری کرنا چاہیں تو اس کا بھی خیر مقدم کیا جاوے گا ۔
******اگر علاقہ میں موجود یا تحویل میں نو مسلم خواتین( ایسی خواتین کو شیخنی کا اس وقت نام دیا گیا تھا اور انہوں نے اپنے والدین کے ستھ ہندوستان جانے سے انکار کر دیا تھا) بھی اگر شادی پر رضا مند ہوں تو انہیں باعزت طریقے سے اپنا گھر بسانے کی اجازت ہے۔ (انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کے اس اعلان کے نتیجے میں پٹن میں تین خواتین کو قریشی برادری میں بیاہا گیا، سردار یعقوب خان نے ایسی ہی ایک خاتون کو اپنی بہو بنایا اور کہو شرقی کے نمبردار حاجی ایسب خان کے عقد میں بھی ایک خاتون آئی)
****** اگر ڈوگرہ حکومت کے کشمیریوں کیخلاف ظالمانہ اقدامات ختم نہ ہوئے تو کوہالہ پل بند کر کے کشمیر میں ہر قسم کی سپلائی بند کر دی جاوے گی ۔
****** اس کے باوجود اگر ظلم نہ رکا تو جہاد کشمیر کا اعلان کر دیا جاوے گا ۔
نومبر کی24 تاریخ کو ڈوگرہ فوجیوں نے کوہالہ پل بند کر کے کشمیروں کی پاکستان میں آمد و رفت کو روک دیا ۔۔۔۔ سردار یعقوب خان کوہالہ میں ہی تھے ۔۔۔۔ انہوں نے کوہالہ ٹیلیگرام آفس سے مہاراجہ ہری سنگھ کو تار بھیجا کہ اگر 24 گھنٹے کے اندر کوہالہ پل کشمیریوں کیلئے نہ کھلا تو  پھر آخری آپشن کے طور پر انتہائی اقدام اٹھایا جاوے گا جس کی تمام تر ذمہ داری مہاراجہ پر ہو گی ۔۔۔۔ اس کے باوجود ڈوگرہ فووجیوں نے پل نہیں کھولا ۔۔۔۔ کوہالہ میں فاقہ زدہ کشمیریوں خواتین اور ان کے بچوں کے رونے کی آوازیں غربی کوہالہ تک آ رہی تھیں، فوجی ان پر تشدد بھی کر رہے تھے اور وہ آج کے روہنگیا مسلمانوں کی صورت میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔ سردار یعقوب خان اور ان کے ساتھیوں نے کوہالہ پل کے درمیان چارپائی بچھا لی ۔۔۔۔ ایک ڈوگرہ فوجی افسر کی گاڑی بیچ پل کے آ کر کھڑی ہوئی ۔۔۔۔ ادھر سے فوجی افسر اپنی گاڑی نکل آگے بڑھا ۔۔۔۔۔۔ ادھر سے سردار یعقوب خان آگے بڑھے ۔۔۔۔ ڈوگرا افسر جوں ہی رعونت میں  بڑبڑایا، سردار یعقوب خان کا زناٹے دار تھپڑ اس کے ایک گال سے جا ٹکرایا ۔۔۔۔ ابھی وہ اپنا رخسار سہلا رہا تھا کہ تین چار اہلیان باسیاں نے اسے نیچے گرا لیا، اس کی شرٹ اتاری ۔۔۔۔۔ اس کا پستول قبضے میں لیا ۔۔۔۔ اسے رسی سے کس کر باندھا اور کوہالہ پل سے اسے نیچے لٹکا دیا  اور اعلان کیا کہ ۔۔۔۔ کل صبح تک اگر گیٹ نہ کھولا گیا تو اس فوجی افسر کو شُوٹ کر دیا جاوے گا ۔۔۔۔ یہ انتہائی ایکشن ظہر کے وقت لیا گیا اور عصر سے تھوڑی دیر بعد ہی شرقی کوہالہ کا گیٹ کھل گیا ۔۔۔۔ کشمیری قافلے دھیرے دھیرے اپنے پاکستانی بھائیوں کی طرف بڑھنے لگے ۔۔۔۔ اس لٹکے ہوئے فوجی کو کشمیری فوجیوں نے خود آزاد کیا اور ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد پھر کبھی کوہالہ پل بند نہیں ہوا ۔۔۔۔
میرےایک محترم قاری اخلاص عباسی نے سوال کیا ہے کہ ۔۔۔۔  1945 کے الیکشن میں سردار حسن علی خان کے مد مقابل امیدوار کون تھے؟ ۔۔۔۔ 1945کے الیکشن میں سرکل بکوٹ کی یو سی بکوٹ کے ایک طاقتور امیدوار ۔۔۔۔ سردار آزاد خان کا ایک سال پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا ۔۔۔۔ دوسرے اہم امیدوار کالا بن سے راجہ ممتاز الحمان کے والد گرامی ۔۔۔۔ سردار سید اکبر خان ۔۔۔۔ تھے مگر وہ اس وقت ضعیف تھے اور امراض نے انہیں گھیرا ہوا تھا، سرکل بکوٹ سے سردار حسن علی خان کے مد مقابل کوئی امیدوار نہ تھا البتہ سرکل لورہ، رجوعیہ اور گلیات سے کچھ امیدوار ان کے مقابل تھے اور انہوں نے سب سے زیادہ ووٹ سرکل بکوٹ سے حاصل کر کے مقابلہ جیت لیا تھا ۔
انجمن ۔۔۔۔ سردار عنایت الرحمٰن سے راجہ سرور خان تک
ایوب خان نے 1958مارشل لا لگا کر بہت سی اصلاحات کیں اور ملک کے تمام صوبوں کو تحلیل کر کے دو صوبے بنا دئے، ایک ۔۔۔۔ مغربی پاکستان ۔۔۔۔ اور دوسرا ۔۔۔۔ مشرقی پاکستان ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی 1956 کا آئین منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ اور لورہ ایک ہی حلقہ تھے ۔۔۔۔ جس میں سیاسی پس منظر رکھنے والے مسلم لیگی ۔۔۔۔ سردار عنایت الرحمان عباسی ۔۔۔۔ نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، ان کا خاندان 1936سے ہی سیاست میں موجود تھا اور ان کی ابتدائی تربیت بھی سیاسی ماحول میں ہوئی تھی ۔۔۔۔ ان کے مقابلے میں بھی لورہ اور سرکل بکوٹ سے ہیوی ویٹ سیاسی شخصیات مقابلے میں تھیں اور ان میں بڑی تعداد عباسی امیدواروں کی تھی ۔۔۔۔ ایسے میں ووٹوں کی تقسیم بھی یقینی تھی۔۔۔۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کیلئے ۔۔۔۔۔ سردار عنایت الرحمان عباسی نے ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔

 لورہ تک اس وقت سڑک کی سہولت موجود نہیں تھی نہ ہی ابھی نگری ٹوٹیال برقی قمقموں سے ہی روشن ہوا تھا ۔۔۔۔ سردار عنایت الرحمان عباسی نے  مارچ 1960 میں انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کا ایک اجلاس اپنے آبائی گائوں میں بلایا اور اس تقریب کیلئے وسیع قیام و طعام کا بندو بست بھی کیا ۔۔۔۔ لورہ جانے والی پگڈنڈی کو بھی کشادہ کرایا اور مری انتظامیہ سے ۔۔۔۔ لورہ کیلئے بجلی ۔۔۔۔ بھی مانگ لی، تمام انتظامات مکمل ہونے کے بعد مندوب آنے شروع ہوئے اور ان کے سامنے  مسئلہ یہ رکھا کہ ۔۔۔۔۔ اگر ایوبی حکومت نے الیکشن کرائے تو ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ اور لورہ سے موزوں ڈھونڈ عباسی امیدوار کونسا ہونا چائیے ۔۔۔۔ تیسرے دن تمام عباسی مندوبین کا ۔۔۔۔ سردار عنایت الرحمان کے نام پر اتفاق ہو چکا تھا اور ایک طرح کا ریفرنڈم بھی ۔۔۔۔ ادھر ایوب خان نے الیکشن کے بجائے اپنے جواز پر ریفرنڈم کا اعلان کر دیا ۔۔۔۔ قوم کے سامنے سوال یہ رکھا گیا کہ ۔۔۔۔ کیا آپ کو ایوب خان پر اعتماد ہے ۔۔۔۔؟پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق اس سوال کے جواب میں 95.6 فیصد ووٹ پڑے اور جنرل ایوب خان کی وردی اتر گئی اور وہ صدر پاکستان کا حلف اٹھا کر صدارتی گھر میں شفٹ ہو گئے ۔۔۔۔۔ اس صورتحال میں انہوں نے مغربی پاکستان اسمبلی میں نامزدگیاں مانگیں ۔۔۔۔ ایوب خان ریحانہ کے اور عنایت الرحمان عباسی نگری ٹوٹیال کے تھے ۔۔۔۔ ایوب خان کو انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کے نگری ٹوٹیال کے کنونشن اور اس کے نتیجے میں ڈھونڈ برادری کے فیصلے کا علم بھی تھا ۔۔۔۔ عنایت الرحمان عباسی کو ایوان صدر میں ملاقات کیلئے بلایا گیا اور انہیں مغربی پاکستان اسمبلی میں مسلم لیگ کی نشست پر پارلیمانی سیکرٹری نامزد کیا گیا ۔۔۔۔
راجہ سرور خان، گھوڑا گلی

 ایوب خان کو ایک ایسے اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کی بھی ضرورت تھی جو اس آمر مطلق کے ہر جائز و ناجائز  بل پر آنکھیں بند کر کے دستخط کر دے ۔۔۔۔ سردار صاحب خطہ کوہسار کے ایک ایسے آفیسر سے واقف تھے جو ایوب خان کے طے کردہ میرٹ پر پورا اترتا اور سارے جائز و ناجائز بل بھی منظور کرتا جاتا ۔۔۔۔ پھر اس کی پاکستان کے قومی حسابات کیلئے اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے تقرری ہو گئی ۔۔۔۔۔ یہ آفیسر موجودہ یو سی بیروٹ کی ویلیج کونسل کہو شرقی کا رہائشی، اسلامیہ کالج پشاور کا 1938 کا گریجویٹ اور مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا سرگرم طالب علم عہدیدار اور قائد اعظم کے ساتھ خط و کتابت کرنے والا صوفی منش شخص ۔۔۔۔۔ حاجی سردار سرفراز خان ۔۔۔۔ تھا ۔ کہو شرقی سے تعلق رکھنے والے ۔۔۔۔ حاجی سرفراز خان ۔۔۔۔ کے آبا و اجداد سہام راولپنڈی سے ہجرت کر کے کر پہلے لہور، بیروٹ خورد اور انیسویں صدی کے آخر میں کہو شرقی میں آباد ہوئے تھے اور ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے ذیلی خاندان خانال سے تعلق رکھتے تھے ۔۔۔۔۔ انہوں نے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کی اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بڑے سرگرم اور جوشیلے نوجوان تھے ۔۔۔۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے انہیں 17نومبر 1937 کو پشاور اور مردان میں مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کی ہدایت فرمائی ۔۔۔۔ انہوں نے 1940 کے لگ بھگ اس وقت بٹش سول سروس کا امتحان نمایاں پوزیشن میں پاس کیا اور انڈین سول سروس کا حصہ بنے ۔۔۔۔۔ حاجی سرفراز خان سرکل بکوٹ کے پہلے کمیشن حاصل کرنے والےسول سرونٹ تھے ۔۔۔۔ حاجی صاحب نے انڈیا میں کئی ایک سٹیشنوں پر خدمات سرانجام دیں ۔۔۔۔ وہ دسمبر 1947 کو چھٹیوں پر گھر آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔ انہیں پتہ چلا کہ باسیاں میں  انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کے زیر اہتمام مجاہدین کا ایک اہم اجلاس ہو رہا ہے وہ بھی اس اجلاس میں پہنچ گئے ۔۔۔۔ انہیں دیکھ کر شرکائے اجلاس خاصے پریشان ہو گئے تاہم انہوں نے کہا کہ ۔۔۔۔
حاجی سرفراز خان آف یو سی بیروٹ
میں انڈین سول سروس کا افسر کی حیثیت سے آپ کی کیا خدمت بجا لا سکتا ہوں ۔۔۔۔؟ اس پر انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ باسیاں کے صدر سردار یعقوب خان نے انہیں انجمن سے متعلق بھی بریف کیا اور کہا کہ مجاہدین کو اسلحہ کی شدید ضرورت ہے وہ ہمیں فراہم کیا جاوے ۔۔۔۔ حاجی صاحب نے اس کے بارے میں وعدہ کیا اور کشمیر پر حملے اور دیگر تفصیلات طے کرتے ہوئے سارا وقت حاجی صاحب اجلاس میں  موجود رہے ۔۔۔۔۔ اگلے روز حاجی سرفراز خان پشاور پہنچے ۔۔۔۔ صوبہ سرحد (موجودہ کے پی کے) کے پہلے وزیر اعلی ۔۔۔۔ خان عبدالقیوم خان ۔۔۔۔ سے ملے اور مجاہدین کے سارے منصوبے سے انہیں اگاہ کیا اور اسلحہ کی ڈیمانڈ بھی ان کے سامنے رکھ دی ۔۔۔۔ حکمت عملی یہ طے پائی کہ سرحد حکومت اسلحہ راولپنڈی پہنچائے گی اور حاجی صاحب اسے مری، باسیاں اور مجاہدین کے آگلے مورچوں تک پہنچانے کا بندوبست کریں گے ۔۔۔۔ حاجی صاحب نے پہلا ٹرک اسلحہ، گولہ بارود  سے لوڈ کر کے مولاچھ باسیاں پہنچ گئے ۔۔۔۔۔ سردار یعقوب خان کے حوالے کیا جنہوں یہ سارہ اسلحہ اور گولہ بارود موقع پر موجود مجاہدین کے حوالے کیا اور فارورڈ کہوٹہ تک سپلائی لائن بھی بنائی ۔۔۔۔ یہ اسلحہ یوں 1949 تک مجاہدین کو ملتا رہا ۔۔۔۔ حاجی صاحب بھی سردار یعقوب خان کے اصرار پر انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ باسیاں کا حصہ بن گئے اور اپنی برادری کی اس تنظیم سے لائف ٹائم وابستہ رہے ۔۔۔۔
حاجی سرفراز خان ۔۔۔۔ 1949 میں ایبٹ آباد میں تعینات تھے، حکم ملا کہ گورنر صوبہ سرحد گڑھی حبیب اللہ خان کا دورہ کریں گے، آپ نے بھی انتظامات کی دیکھ بھال کرنی ہے ۔۔۔۔۔ حاجی صاحب گڑھی حبیب اللہ پہنچے، انتظامات کا جائزہ لیا مگر انہیں گڑھی حبیب اللہ کا ایس ایچ او اپنی پراسرار سرگرمیوں کی وجہ سے کچھ مشکوک نظر آیا اور انہوں نے ایک دو بار بلا کر اشاروں کنایوں میں اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی۔۔۔۔۔ دورے والے روز ضلعی انتظامیہ کے دیگر افسران بھی گورنر کے ہمراہ گڑھی حبیب اللہ میں دن بھر موجود رہے اور سرکاری معاملات نمٹاتے رہے ۔۔۔۔۔ حاجی صاحب نے موقع دیکھ کر اس ایس ایچ کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں گورنر کو آگاہ کیا جس پر اسے لائن حاضر کر دیا گیا اور تھانے کا چارج اس کے جونئیر کو دے دیا گیا ۔۔۔۔ شام کو حاجی صاحب  ایبٹ آباد جانے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ تین چار افراد آ گئے اور انہیں دعوت کا کہہ کر اپنے ساتھ لے گئے ۔۔۔۔۔ راستے میں ہی وہ ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کو لہو لہان کر کےفرار ہو گئے ۔۔۔۔۔ جہاں ان پر تشدد کیا گیا یہ جگہ موجودہ یو سی بوئی کے کس میں تھی ۔۔۔۔  حاجی صاحب کے سوانح نگار پروفیسر اسلم اپنی کتاب ۔۔۔۔ حیات سرفراز ۔۔۔۔ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔  حاجی سرفراز خان گرتے پڑتے ایک گھر میں پہنچے، گھر والوں نے ان کی مرہم پٹی کی اور خدمت بھی ۔۔۔۔ دوسرے روز وہ بکوٹ پولیس سٹیشن پہنچے مگر الٹا مدا ان پر ڈال دیا گیا کہ ۔۔۔۔ انہوں نے کار سرکار میں مداخلت کی ہے ۔۔۔۔ حالانکہ حاجی سرفراز خان خود اس وقت ضلع ہزارہ کے ۔۔۔۔  ایک زندہ اور صاحب اختیار سرکار ۔۔۔۔ تھے۔
فیلڈ مارشل صدر ایوب خان
فیلڈ مارشل صدر ایوب خان ۔۔۔۔۔ نے صدارتی منصب سنبھالنے اور وردی اتارنے کے بعد جولائی 1961 میں امریکہ کا پہلا دورہ کیا ۔۔۔۔ ان کے ہمراہ خاتون اول بھی تھیں، ان کی اپنی کابینہ میں اپنے سگے ان پڑھ بھائی اور وزیر تعلیم کی طرح ۔۔۔۔ ایوبی دلہن ۔۔۔۔ بھی ناخواندہ تھیں اس لئے انہیں امریکیوں کے ساتھ انگریزی بولنے  اور برتنے کیلئے اپنی دختر نیک اختر ۔۔۔۔ کلثوم ایوب ۔۔۔۔ جو بعد میں کلثوم سیف اللہ خان بھی بنیں، کو ساتھ لے جانا پڑا  ۔۔۔۔۔ واپسی پر معمول کے مطابق امریکی دورے کےشاہانہ  اخراجات  پر مبنی ۔۔۔۔  لاکھوں روپے کا بل۔۔۔۔ اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کے آفس بھیجا گیا ۔۔۔۔ اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان حاجی سرفراز خان ۔۔۔۔ نے بل پر سرخ روشنائی سے لکھا ۔۔۔۔۔ مسٹر پریزیڈنٹ ۔۔۔۔ آئین کے مطابق سرکاری اخراجات پر آپ اور خاتون اول کو بیرون ملک دورہ کی اجازت ہے ۔۔۔۔ اپنی صاحبزادی صاحبہ کے اخراجات آپ کو اپنی جیب سے ادا کرنے ہوں گے ۔۔۔۔۔ صدر ایوب خان کو یہ بل اعتراضات کے ساتھ واپس کیا گیا ۔۔۔۔۔ اصول پرستی اور غیرت کا زمانہ تھا ۔۔۔۔ ابن مشرف کی طرح پاکستان کے قاضی القضاۃ افتخار چوہدری کو طلب کر کے برطرف کرنے کی ناپاک جسارت جیسے قابل مذمت اقدام کے بجائے ۔۔۔۔ صدر ایوب نے حاجی سرفراز خان کو طلب کیا اور نہ ہی وضاحت مانگی بلکہ اس بل کو من و عن قبول بھی کیا ۔۔۔۔۔ تاہم ایوب پارک راولپنڈی میں ہونے والی ایک تقریب میں صدر ایوب نے حاجی صاحب سے اس بل کے حوالے سے گلہ ضرور کیا جس کا جواب بقول الطاف گوہر۔۔۔۔۔ حاجی صاحب نے ان الفاظ میں دیا ۔۔۔۔
جناب صدر ۔۔۔۔ حکومت پاکستان کا خزانہ میرا ہے نہ آپ کا ۔۔۔۔ اس میں قوم کی خون پسینے کی کمائی ہے ۔۔۔۔ اگر آپ کو اعتراض ہے تو میری جگہ کسی اور کو اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان تعینات کر دیں، میں قوم کے پیسے میں خیانت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔؟
اگرچہ حاجی محمد سرفراز خان نے ۔۔۔۔ انجمنن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ میں وہ کردار تو ادا نہیں کیا جس کی وہ مستحق تھی مگر اس میں بھی قصور ان کا نہیں تھا ۔۔۔۔ وہ ایک صوفی منش انسان تھے ، شہرت سے بہت دور بھاگتے تھے اور دربار عالیہ موڑہ شریف کے مریدین اور خادمین سے تھے ۔۔۔۔ ایوبی دور میں حاضر سروس اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان ایک دفعہ لا پتہ ہو گئے ۔۔۔۔ ایوب خان کی پیشانی پر پسینہ آ گیا اور انہوں نے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو 24 گھنٹے کے اندر انہیں برآمد کرنے کا حکم دے دیا ۔۔۔۔ مگر وہ نہ ملے ، پیر صاحب موہڑہ شریف سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی لا علمی کا اظہار کیا ۔۔۔۔ افتخار عباسی کی والد محترمہ سے معلومات لی گئیں تو پتہ چلا کہ وہ ہر تیسرے ماہ ۔۔۔۔ کنیر کس میں جندراں نی ڈھیری کے بالمقابل ایک ویران جگہ پر چلہ کرتے ہیں ۔۔۔۔ سیکوریٹی اہلکار ہانپتے کانپتے انہیں تلاشتے ان تک پہنچ ہی گئے ۔۔۔۔ وہ مراقبہ کی حالت میں تھے اور اپنا وی آئی پی تھری پیس سوٹ کے ساتھ ٹائی بھی پہنے ہوئے یادالٰہی میں مصروف تھے ۔۔۔۔
ایک سیکوریٹی اہلکار آگے بڑھ کر حاجی صاحب سے بولا ۔۔۔۔ سر ۔۔۔۔ آپ یہاں پر ہیں اور ہماری جان پر بنی ہوئی ہے ۔۔۔۔ صدر صاحب نے آپ کو بلایا ہے ۔۔۔۔ پلیز ہمارے ساتھ چلیں ۔
آپ جائیے ۔۔۔۔ ایوب خان کو کہہ دیجئے ۔۔۔۔ میں پرسوں آئوں گا ۔۔۔۔ ابھی مصروف ہوں۔۔۔۔ اس جواب پر انہوں نے پھر التجا کی جس پر حاجی صاحب نے  پاکستان کے سب سے زیادہ طاقتور حکمران ایوب خان کے نام رقعہ میں لکھا ۔۔۔۔ Mr. President waits me till Thursday morning.... Don’t disturb me again.... 
حاجی صاحب کی اکلوتی اولاد ان کے ایک صاحبزادے تھے ۔۔۔۔ نام تھا ان کا افتخار عباسی ۔۔۔۔ اعلیٰ اور عمدہ تعلیم سے انہیں اراستہ کیا ۔۔۔۔  ان کی آگے ایک صاحبزادی ہیں جو کمانڈر شوکت عباسی کی اہلیہ ہیں ۔۔۔۔ یہ جتنی باتیں میں نے حاجی صاحب کے بارے میں آپ کو پیش کی ہیں ۔۔۔۔ حاجی سرفراز خان ٹرسٹ لاہور کے زیر اہتمام شائع ہونے واالی کتاب ۔۔۔۔ حیات سرفراز ۔۔۔۔ سے اخذ کردہ ہیں اور اس کتاب کی مجلد فوٹو کاپی کتاب مجھے حاجی صاحب کی پوتی اور مسز کمانڈر شوکت نے کراچی میں پیش کی تھی ۔۔۔۔ حاجی صاحب ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہے، پانچ وقت کی نماز کے علاوہ تہجد گزار بھی تھے ۔۔۔۔ یہ کہو شرقی کے ان اصحاب صالحہ میں شامل تھے جن پر ۔۔۔۔ یو سی بیروٹ کے لوگ بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ آج کے دور میں جماعت اسلامی ضلع ایبٹ آباد کے نائب امیر سعید عباسی، راولپنڈی سے سابق ایم این اے  حنیف عباسی اور یو سی بیروٹ کے سابق ناظم طاہر فراز عباسی حاجی صاحب کے ہی بھتیجے ہیں  ۔۔۔۔ حاجی صاحب پر کوئی اپنا یا پرایا مثقال برابر کرپشن کا الزام لگانے پر بھی عاجز ہے ۔۔۔۔۔ مگر سعید عباسی ملکوٹ کے حاجی حبیب الرحمان عباسی ایڈووکیٹ کے ۔۔۔۔ چھوٹے بڑے ووٹ ۔۔۔۔ کے الزامات کی زد میں ہیں جبکہ حنیف عباسی معروف ایفی ڈرین مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔ رہے طاہر فراز عباسی ایڈووکیٹ ۔۔۔۔ تلاش کرنے والوں نے تخت الثریٰ تک کیا کچھ نہیں تلاشا مگر ان کی ساری نظامت بیروٹ میں اپنے تایا کی طرح ان کا دامن بے داغ ہی نکلا ہے۔۔۔۔۔کرسی کا نیتا بنناکیا، دل پر راج کرو تو جانیں ۔

اختر ایوب کا اہلیان کوہسار پر ظلم اور انجمن کی اپیل پر ہڑتال
یہ 1964 کامئی کا مہینہ تھا ۔۔۔۔ ایوبی اقتدار نصف النہار پر تھا اور ایوبی اولاد ملک بھر میں دندنا رہی تھی ۔۔۔۔ اختر ایوب اپنی بیگم اور دیگر خواتین کے ہمراہ   سنو فال دیکھنے  مری کی جانب روا دواں تھے ۔۔۔۔  وہ اپنی مرسڈیز پر کمپنی باغ پہنچے ۔۔۔۔ وہاں گاڑی پارک کی اور فرزند ایوب خان نیچے اترے اور غالباً مثانہ  خالی کرنے کسی پوشیدہ جگہ تلاش کرنے لگے ۔۔۔۔ کمپنی باغ کے اس مقام پر کچھ محنت کشوں نے اس گاڑی کو گھیر لیا اور بغیر پوچھے ہی اس کو نہلانا شروع کر دیا ۔۔۔۔ ایک بیگم صاحبہ نے شیشہ نیچے کیا ہوا تھا کہ ۔۔۔۔ ایک محنت کش کے پانی کی ۔۔۔ چھلاٹی ۔۔۔۔ نے اس پر حملہ کر کے اس کے نازک جسم کو بھی بھگو کر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ اس نے ایک خونخوار نظر اس پانی پھینکنے والے محنت کش پر ڈالی اور ۔۔۔۔ بد تمیز، ایڈیٹ ۔۔۔۔ کہہ کر شیشہ اوپر کر لیا ۔۔۔۔ ایوبی شہزادہ واپس آیا تو ان خواتین خانہ و بیرون خانہ نے ۔۔۔۔ گاڑی دھونے والے ان ۔۔۔۔ بدتمیز، ایڈیٹ ۔۔۔۔ محنت کشوں کی شکایت کی، اس نے گاڑی ریورس کرتے ہوئے وہیں روکی ۔۔۔۔ ڈیش بورڈ کھولا ۔۔۔۔ آلہ آتش و آہن نکال کر اس کو ان لاک کیا، گراری گھمائی ۔۔۔۔ شہزادہ نیچے اتر ا۔۔۔۔ اپنی گاڑی دھونے والے ان محنت کشوں کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا ۔۔۔۔ وہ سمجھے ۔۔۔۔ صاحب گاڑی کی لش پش کا کوئی انعام دینے والے ہیں ۔۔۔۔ سب دوڑتے ہوئے آئے ۔۔۔۔۔ شہزادے کا ہاتھ آگے کی طرف بڑھا اور ۔۔۔۔ یہ چھ محنت کش اپنے سینے میں چھ گولیاں کھا کر ۔۔۔۔ سڑک کے اس کیچڑ اور آلودہ پانی میں تڑپنے لگے ۔۔۔۔ ان کے سینے سے سرخ لہو فوارے کی صورت میں نشیب کی طرف پہنے والے گاڑیوں کے گندے پانی کو سرخ کرتے ہوئے آگے جا رہا تھا ۔۔۔۔ گھوڑا گلی، مری کی چھ سہاگنیں بیوہ اور دو درجن بچے یتیم ہو چکے تھے ۔ جنازے تیار تھے ۔۔۔۔ نماز کے بعد انہیں اپنے اپنے آبائی قبرستان میں دفنایا جانا بھی تھا ۔۔۔۔ اس موقع پر شاعر مری ۔۔۔۔ صادق شاہ بخاری نے اسی جنازہ گاہ میں ۔۔۔۔ ایوبی اولاد کے اس ظلم و ستم پر ایک المیہ گیت پڑھا ۔۔۔۔ ہزاروں نمازیوں نے اس گیت کے جواب میں ایک ہی آواز بلند کی ۔۔۔۔ انتقام، انتقام اور انتقام ۔۔۔۔ تمام بے گناہ محنت کش آہوں اور سسکیوں میں منوں مٹی تلے چلے گئے ۔۔۔۔ یہاں پر ہی اعلان کیا گیا کہ ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ کا ایک اہم اجلاس گھوڑا گلی میں ہو گا اور اس سانحہ کے بارے میں سردار ان قوم ڈھونڈ غور کر کے اگلا لائیحہ عمل مرتب کریں گے ۔۔۔۔ راجہ غلام سرور خان نے اس سانحہ پر غور کیلئے میزبانی کی اور ۔۔۔۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ۔۔۔۔ اس وقت تک مری روڈ بند رہے گی جب تک ۔۔۔۔ شہدائے گھوڑا گلی کا مقدمہ درج نہیں ہوتا ۔۔۔۔ جب تک قاتل گرفتار نہیں ہو جاتا ۔۔۔۔ جب تک مقتول محنت کشوں کے لواحقین کو انصاف نہیں مل جاتا ۔۔۔۔ جب تک صدر ایوب خان ان مقتولین گھوڑا گلی کے لواحقین کی داد رسی نہیں کرتے ۔۔۔۔ ادھر ریحانہ کا حاکم اور اس کی اولاد ۔۔۔۔ شہدائے گھوڑا گلی کے ساتھ اتنے بڑے ظلم پر ٹس سے مس نہ ہوئے ۔۔۔۔ مری روڈ کو بریکیں لگ گئیں ۔۔۔۔ بھارہ کہو سے آگے سب کچھ لاک اور بلاک ہو کر رہ گیا ۔۔۔۔ اور اس صورت میں کوہسار، سرکل بکوٹ، سرکل لورہ، کشمیر اور تمام علاقوں سے ۔۔۔۔ العطش ۔۔۔۔ کی آوازیں آنے لگیں ۔۔۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔۔۔ نصف ماہ گزر گیا ۔۔۔۔ ایوبی شہزادہ گرفتار ہوا نہ ہی صدارتی ایوان پر کوئی فرق پڑا ۔۔۔۔ پنجاب اور سرحد کے علاوہ آزاد کشمیر سے بھی ۔۔۔۔ ایوب کتا ہائے ہائے ۔۔۔۔ کی سرگوشیاں ابھرنے لگیں اور ایوان صدر کا سکون غارت ہونے لگا ۔۔۔۔۔؟
راجہ غلام سرور خان
راجہ غلام سرور خان کو ٹیلیفون کالیں ہونے لگیں ۔۔۔۔ ہر کال پر جواب تھا ۔۔۔۔ سوری سر، آخر ایوب خان نے خود فون کیا، اپنی گاڑی گھوڑا گلی بھیجی، جب غلام سرور خان ایوان صدر پہنچے تو ان کے ساتھ ساتھ پیر صاحب دیول شریف  حضرت پیر عبدالمجید احمدؒ بھی تشریف لے آئے ۔۔۔۔ ایوب خان نے احترام سے دونوں شخصیات کو بٹھایا اور گوہر ایوب بھی آ گئے ۔۔۔۔ گوہر ایوب نے اپنے والد فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کی موجودگی میں اپنے چھوٹے بھائی کی طرف سےمعذرت کی اور غمزدہ خاندانوں کی بحالی، ان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دینے کا وعدہ کیا اور کمسن بچوں کی مکمل تعلیم اور ان کی کفالت پر بھی لیکچر دے ڈالا ۔۔۔۔ ساتھ ہی دبے حاکمانہ الفاظ میں مری روڈ کو کھولنے کیلئے بھی کہا ۔۔۔۔ راجہ صاحب نے جواب دیا کہ ۔۔۔۔۔ کمپنی باغ کے یہ محنت کش کوئی مکھی یا مچھر نہیں تھے کہ ان کا خون ایسے ہی معاف کر دیا جاوے ۔۔۔۔ تو پھر ۔۔۔۔؟ بڑا ایوبی شہزادہ بولا، ۔۔۔۔ مقدمہ درج کیا جاوے، عدالتی ٹرائل ہو، مقتولین کا مقدمہ ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ خود لڑے گی، صدر صاحب، ان چھ شہیدوں کا مقدمہ پینے نہیں دیں گے ۔۔۔۔ پیر صاحب دیول شریف نے بھی راجہ صاحب کی تائید کی اور دونوں شخصیات ایوبی جاہ و جلال کو سلام کئے بغیر باہر آ کر اپنی اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں ۔۔۔۔ شام کو ریڈیو پاکستان پر تحصیل مری کیلئے دو ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان ہو چکا تھا، مقتولین کے ورثا کیلئے پانچ پانچ لاکھ روپے، راولپنڈی میں دس دس کنال کے پلاٹوں اور سرکاری ملازمت کے اپوائیٹمنٹ لیٹر  بھی پہنچا دئے گئے تھے ۔۔۔۔ تمام بچے سرکاری خرچ پر لارنس کالج میں داخل ہو چکے تھے ۔
 فروری 1965کے عام انتخابات ہوئے ۔۔۔۔مری سے راجہ غلام سرور خان بھاری منڈیٹ لے کر کامیاب ہو چکے تھے ۔۔۔۔ اس الیکشن میں کوئی برادری ازم نہیں تھا، ان کے اس مقصد کو ووٹ دیا گیا جو انہوں نے پاکستانی ڈکٹیٹر اور سلطان، ایوب خان کے سامنے لیا تھا، اس جرات مندی پر راجہ غلام سرور پنجاب اسمبلی میں پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔ روات سے سیاسی اقتدار کا ہما اب گھوڑا گلی میں کوک رہا تھا ۔۔۔۔ اس کے بعد سے راجگان گھوڑا گلی پاکستان کے ہر الیکشن کے شہسوار بنے یہاں تک کہ موجودہ  صوبائی وزیر راجہ شفاق سرور اسی سیاسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے آج وزیر سیاحت ہیں ۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ 1965 کے بعد پھر ۔۔۔۔ انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ ۔۔۔۔ اپنی تابناک اور شاندار خدمات کے ساتھ تاریخ کا حصہ بن گئی اور کوہسار کے لوگ سیاسی پارٹیوں میں بٹ کر رہ  گئے۔
اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی

************************

<<Next>>

Comments